اک لو تھی مرے خون میں تحلیل تو یہ تھی
اک برق سی رو تھی مری قندیل تو یہ تھی
تیرے رخ خاموش سے میری رگ جاں تک
جو کام کیا آنکھ نے ترسیل تو یہ تھی
بننا تھا تو بنتا نہ فرشتہ نہ خدا میں
انسان ہی بنتا مری تکمیل تو یہ تھی
سانپوں کے تسلط میں تھے چڑیوں کے بسیرے
مفتوح گھرانے! تری تمثیل تو یہ تھی
ٹیلے کا کھنڈر صدیوں کی تاریخ لیے تھا
اجمال بتاتا تھا کہ تفصیل تو یہ تھی
وہ جانتا تھا سجدہ فقط تجھ کو روا ہے
پلٹا نہ پھر اس حکم سے تعمیل تو یہ تھی
اک خواب دھندلکوں میں بکھرتا ہوا کوثرؔ
آخر رخ تعبیر کی تشکیل تو یہ تھی

غزل
اک لو تھی مرے خون میں تحلیل تو یہ تھی
اقبال کوثر