عجب مذاق اس کا تھا کہ سر سے پاؤں تک مجھے
وفاؤں سے بھگو دیا ندامتوں کی سوچ میں
حمیرا رحمان
گذشتہ موسموں میں بجھ گئے ہیں رنگ پھولوں کے
دریچہ اب بھی میرا روشنی کے زاویوں پر ہے
حمیرا رحمان
ہم اور تم جو بدل گئے تو اتنی حیرت کیا
عکس بدلتے رہتے ہیں آئینوں کی خاطر
حمیرا رحمان
ہوا کی تیز گامیوں کا انکشاف کیا کریں
جو دوش پر لیے ہو اس کے بر خلاف کیا کریں
حمیرا رحمان
کنکر پھینک رہے ہیں یہ اندازہ کرنے کو
ٹھہرا پانی کتنی حمیراؔ ہلچل رکھتا ہے
حمیرا رحمان
لوگو! ہم پردیسی ہو کر جانے کیا کیا کھو بیٹھے
اپنے کوچے بھی لگتے ہیں بیگانے بیگانے سے
حمیرا رحمان
مری المایوں میں قیمتی سامان کافی تھا
مگر اچھا لگا اس سے کئی فرمائشیں کرنا
حمیرا رحمان
روشندان سے دھوپ کا ٹکڑا آ کر میرے پاس گرا
اور پھر سورج نے کوشش کی مجھ سے آنکھ ملانے کی
حمیرا رحمان
وہ لمحہ جب مرے بچے نے ماں پکارا مجھے
میں ایک شاخ سے کتنا گھنا درخت ہوئی
حمیرا رحمان