دل کو درون خواب کا موسم بوجھل رکھتا ہے
اک ان جانے خوف سے واقف ہر پل رکھتا ہے
وہ جو بظاہر ہر ذرہ ہے تیز ہواؤں میں
اپنے ہونے کا احساس مکمل رکھتا ہے
ترک تعلق نے میری بھی سوچ کو بدلا نہیں
وہ بھی شکایت اپنے ساتھ مسلسل رکھتا ہے
ریگستان کا پودا ہوں میں اور بہت سیراب
اپنا روپ رویہ مجھ پر بادل رکھتا ہے
کنکر پھینک رہے ہیں یہ اندازہ کرنے کو
ٹھہرا پانی کتنی حمیراؔ ہلچل رکھتا ہے
غزل
دل کو درون خواب کا موسم بوجھل رکھتا ہے
حمیرا رحمان