جیسے کوئی ضدی بچہ کب بہلے بہلانے سے
ایسے ہم دنیا سے چھپ کر دیکھیں خواب سہانے سے
سب کچھ سمجھے لیکن اتنی بات نہیں پہچانے لوگ
مل جاتا ہے چین کسی کو ایک تمہارے آنے سے
ہم تو غم کی ایک اک شدت باہر آنے سے روکیں
اس کی آنکھیں باز نہ آئیں انگارے برسانے سے
لوگو! ہم پردیسی ہو کر جانے کیا کیا کھو بیٹھے
اپنے کوچے بھی لگتے ہیں بیگانے بیگانے سے
دیکھو دوست! تمہارا مقصد شاید ہمدردی ہی ہو
میرا پیکر ٹوٹ گرے گا وہ باتیں دہرانے سے
گھر کا سناٹا تو حمیراؔ ہنگاموں کی نذر ہوا
دل کی ویرانی ویسی کی ویسی ایک زمانے سے
غزل
جیسے کوئی ضدی بچہ کب بہلے بہلانے سے
حمیرا رحمان