لوگ تو اک منظر ہیں تخت نشینوں کی خاطر
فرش بچھایا جاتا ہے قالینوں کی خاطر
کتنی بے ترتیبی پھیلی کیا کچھ ٹوٹ گیا
سجے سجائے گھر تھے انہی مکینوں کی خاطر
ٹھہر گئے ہیں عین سفر میں بن سوچے سمجھے
ہم سفری کے کچھ بے نام قرینوں کی خاطر
جل بجھتے ہیں لوگ کسی کو فیض پہنچنے پر
گر جاتے ہیں کچھ بے معنی زینوں کی خاطر
ہم اور تم جو بدل گئے تو اتنی حیرت کیا
عکس بدلتے رہتے ہیں آئینوں کی خاطر
اونچے دام لگے ہیں حمیراؔ کورے جذبوں کے
سودا برا نہیں ہے چند مشینوں کی خاطر
غزل
لوگ تو اک منظر ہیں تخت نشینوں کی خاطر
حمیرا رحمان