قیامتیں گزر گئیں روایتوں کی سوچ میں
خلش جو تھی وہی رہی محبتوں کی سوچ میں
یہ اب کھلا کہ اس کی شاعری میں میری بات کا
جو رنگ خاص تھا مٹا اضافتوں کی سوچ میں
میں اپنے چہرۂ جنوں کو آئنے میں دیکھ لوں
تو عکس بجھ نہ جائے گا حقیقتوں کی سوچ میں
میں اپنی دھوپ چھاؤں کی ضمانتیں نہ دے سکوں
تو آپ کیوں جلیں بجھیں تمازتوں کی سوچ میں
عجب مذاق اس کا تھا کہ سر سے پاؤں تک مجھے
وفاؤں سے بھگو دیا ندامتوں کی سوچ میں
گئی رتوں نے ہنس کے راستوں کے زخم بھر دیے
حمیراؔ آج کون تھا مسافتوں کی سوچ میں
غزل
قیامتیں گزر گئیں روایتوں کی سوچ میں
حمیرا رحمان