بہت قدیم نہیں کل کا واقعہ ہے یہ
میں اس زمین پہ اترا تھا تیری ذات کے ساتھ
فیضان ہاشمی
بس یہی سوچ کے رہتا ہوں میں زندہ اس میں
یہ محبت ہے کوئی مر نہیں سکتا اس میں
فیضان ہاشمی
جس پری پر مر مٹے تھے وہ پری زادی نہ تھی
بعد میں جانا کہ اس کے دونوں پر ہوتے تھے ہم
فیضان ہاشمی
خلا میں گروی رکھا اپنے سارے خوابوں کو
اور اس زمین پہ چھوٹا سا گھر لیا میں نے
فیضان ہاشمی
میں اپنی خوشیاں اکیلے منایا کرتا ہوں
یہی وہ غم ہے جو تجھ سے چھپا ہوا ہے مرا
فیضان ہاشمی
میں اس کو خواب میں کچھ ایسے دیکھا کرتا تھا
تمام رات وہ سوتے میں مسکراتی تھی
فیضان ہاشمی
تیرا بوسہ ایسا پیالہ ہے جس میں سے
پانی پینے والا پیاسا رہ جائے گا
فیضان ہاشمی
تیری ہی سیر کے لیے آتا رہوں گا بار بار
تیرا تھا سات دن کا شوق میری ہے عمر بھر کی سیر
فیضان ہاشمی
وہ کیا خوشی تھی جو دل میں بحال رہتی تھی
مگر وجہ نہیں بنتی تھی مسکرانے کی
فیضان ہاشمی