اسی جہاز کے صحرا میں ڈوب جانے کی
خبر ملی تھی مجھے خواب میں خزانے کی
بہت سے دیدہ و نادیدہ خواب سامنے تھے
اک ایسی سمت تھی کروٹ مرے سرہانے کی
میں اس جگہ پہ جو اک دن پلٹ کے آیا تو
کوئی بھی چیز نہیں تھی مرے زمانے کی
ہر ایک کام سہولت سے ہوتا رہتا تھا
کوئی خلش نہیں ہوتی تھی کر دکھانے کی
میں اک خیال کا خیمہ لگائے بیٹھا تھا
بہت جگہ تھی مرے پاس سر چھپانے کی
وہ کیا خوشی تھی جو دل میں بحال رہتی تھی
مگر وجہ نہیں بنتی تھی مسکرانے کی
اک ایسے وقت میں وہ دونوں ہو گئے آباد
جہاں کسی کو اجازت نہیں تھی آنے کی
عجیب دشت تھا جو مجھ سے داد چاہتا تھا
قریب پھیلے ہوئے دور کے زمانے کی
تمام شہر میں پوری طرح خموشی تھی
مجھے پڑی تھی کوئی گیت گنگنانے کی
غزل
اسی جہاز کے صحرا میں ڈوب جانے کی
فیضان ہاشمی