بہت سا کام تو پہلے ہی کر لیا میں نے
جہاں جہاں مجھے ڈرنا تھا ڈر لیا میں نے
خلا میں گروی رکھا اپنے سارے خوابوں کو
اور اس زمین پہ چھوٹا سا گھر لیا میں نے
بہت شدید توجہ کا سامنا تھا مجھے
سو اک گلاس کو پانی سے بھر لیا میں نے
خدا جہاز کے اندر سے رزق پھینکتا تھا
خدا کا شکر ہے کچھ کیچ کر لیا میں نے
ہوا میں ہاتھ گھمایا غزل نہیں آئی
اچک کے پھول ہی کاغذ پہ دھر لیا میں نے
تمام دوست سمندر کے پار جانے لگے
پر ایک دل کو تو ساحل پہ دھر لیا میں نے
غزل
بہت سا کام تو پہلے ہی کر لیا میں نے
فیضان ہاشمی