دونوں جہاں سے آ گیا کر کے ادھر ادھر کی سیر
پوچھو نہ جا رہا ہوں میں کرنے کو اب کدھر کی سیر
مٹی کی خوبصورتی مٹی میں مل کے دیکھیے
چھوڑیئے اس مکین کو کیجیے اپنے گھر کی سیر
دیکھی نہیں تھی چاک نے اچھی طرح سے دیکھ لی
ویسے بھی دل فریب تھی کوزے پہ کوزہ گر کی سیر
سیب کے پیڑ کے تلے گیند وہ گھومتی ہوئی
پوری کشش سے کھینچ کر کرنے لگی ہے سر کی سیر
ویسے تو کچھ نہیں پتا اتنا پتا ہے باغ ہے
برسوں سے کر رہا ہوں میں جس کے لیے ادھر کی سیر
تیری ہی سیر کے لیے آتا رہوں گا بار بار
تیرا تھا سات دن کا شوق میری ہے عمر بھر کی سیر
پہلی نظر میں کائنات اتنی کھلی کہ جتنی تھی
پھر جو نظر نے سیر کی کرتی رہی خبر کی سیر
غزل
دونوں جہاں سے آ گیا کر کے ادھر ادھر کی سیر
فیضان ہاشمی