سامنے ہوتے تھے پہلے جس قدر ہوتے تھے ہم
جب یہ نظارے نہیں تھے تب نظر ہوتے تھے ہم
تب نیا مٹی سے اٹھا تھا محبت کا خمیر
ہر کسی کوزے میں دو اک گھونٹ بھر ہوتے تھے ہم
جس پری پر مر مٹے تھے وہ پری زادی نہ تھی
بعد میں جانا کہ اس کے دونوں پر ہوتے تھے ہم
تب کسی دیوار سے کوئی تعارف تھا نہیں
ان دنوں کی بات ہے جب در بدر ہوتے تھے ہم
سامنے آتے تھے جب تو ڈھونڈتے تھے کشتیاں
چار آنکھوں سے بنی اک جھیل پر ہوتے تھے ہم
یوں بنا دیتے تھے جیسے شعر ہو جاتے ہیں اب
حرف کن کا بھی کبھی دست ہنر ہوتے تھے ہم
اک گھڑی ایسی بھی آتی تھی ملاقاتوں کے بیچ
تم ادھر ہوتے تھے جس کے اور ادھر ہوتے تھے ہم
غزل
سامنے ہوتے تھے پہلے جس قدر ہوتے تھے ہم
فیضان ہاشمی