بس یہی سوچ کے رہتا ہوں میں زندہ اس میں
یہ محبت ہے کوئی مر نہیں سکتا اس میں
یہ بھی دروازہ ہے اس گھر میں اسے کھولیں تو
رات کھل جاتی ہے کھلتا نہیں کمرہ اس میں
پھول تو پھول میں پتی بھی نہیں توڑوں گا
تجھ سے ثابت ہی نہ ہوگا مرا ہونا اس میں
تو نے دو شخص اتارے تھے یہ میں جانتا ہوں
میں نے بھی شعر کہے ہیں بہت اعلیٰ اس میں
آخری عشق کے آغاز پہ دم توڑتا ہوں
میں کوئی دم دما دم دم نہیں کرتا اس میں

غزل
بس یہی سوچ کے رہتا ہوں میں زندہ اس میں
فیضان ہاشمی