مرے وجود کو موجودگی دکھاتی تھی
دیے کی لو مجھے دیوار کا بتاتی تھی
میں جب زمین سے زہرہ پہ جایا کرتا تھا
تو کائنات کی زنجیر کھینچی جاتی تھی
وہ کیا کرن تھی جو آتی تھی میرے سینے میں
تمہاری دھوپ جب اس جلد تک نہ آتی تھی
میں اس کو خواب میں کچھ ایسے دیکھا کرتا تھا
تمام رات وہ سوتے میں مسکراتی تھی
عجیب وقت تھا اس بنچ پر بغیچہ میں
کہ دن گیا نہیں ہوتا تھا رات آتی تھی
غزل
مرے وجود کو موجودگی دکھاتی تھی
فیضان ہاشمی