اب مجھ کو اہتمام سے کیجے سپرد خاک
اکتا چکا ہوں جسم کا ملبہ اٹھا کے میں
دلاور علی آزر
بدن کو چھوڑ ہی جانا ہے روح نے آزرؔ
ہر اک چراغ سے آخر دھواں نکلتا ہے
دلاور علی آزر
چاند تارے تو مرے بس میں نہیں ہیں آزرؔ
پھول لایا ہوں مرا ہاتھ کہاں تک جاتا
دلاور علی آزر
ایک لمحے کے لیے تنہا نہیں ہونے دیا
خود کو اپنے ساتھ رکھا جس جہاں کی سیر کی
دلاور علی آزر
اک دن جو یونہی پردۂ افلاک اٹھایا
برپا تھا تماشا کوئی تنہائی سے آگے
دلاور علی آزر
میں جب میدان خالی کر کے آیا
مرا دشمن اکیلا رہ گیا تھا
دلاور علی آزر
سبھی کے ہاتھ میں پتھر تھے آذرؔ
ہمارے ہاتھ میں اک آئینا تھا
دلاور علی آزر
سخن سرائی کوئی سہل کام تھوڑی ہے
یہ لوگ کس لیے جنجال میں پڑے ہوئے ہیں
دلاور علی آزر
تم خود ہی داستان بدلتے ہو دفعتاً
ہم ورنہ دیکھتے نہیں کردار سے پرے
دلاور علی آزر