EN हिंदी
منظر سے ادھر خواب کی پسپائی سے آگے | شیح شیری
manzar se udhar KHwab ki paspai se aage

غزل

منظر سے ادھر خواب کی پسپائی سے آگے

دلاور علی آزر

;

منظر سے ادھر خواب کی پسپائی سے آگے
میں دیکھ رہا ہوں حد بینائی سے آگے

یہ قیسؔ کی مسند ہے سو زیبا ہے اسی کو
ہے عشق سراسر مری دانائی سے آگے

شاید مرے اجداد کو معلوم نہیں تھا
اک باغ ہے اس دشت کی رعنائی سے آگے

سب دیکھ رہی تھی پس دیوار تھا جو کچھ
تھی چشم تماشائی تماشائی سے آگے

ہم قافیہ پیمائی کے چکر میں پڑے ہیں
ہے صنف غزل قافیہ پیمائی سے آگے

اک دن جو یوں ہی پردۂ افلاک اٹھایا
برپا تھا تماشا کوئی تنہائی سے آگے

مجھ کاغذی کشتی پہ نظر کیجیے آزرؔ
بڑھتی ہے جو لہروں کی توانائی سے آگے