کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں
جی چاہتا ہے بھاگ لوں دنیا اٹھا کے میں
ہوتی ہے نیند میں کہیں تشکیل خد و خال
اٹھتا ہوں اپنے خواب کا چہرہ اٹھا کے میں
بعد از صدائے کن ہوئی تقسیم ہست و بود
پھرتا تھا کائنات اکیلا اٹھا کے میں
کیوں کر نہ سہل ہو مجھے راہ دیار عشق
لایا ہوں دشت نجد کا نقشہ اٹھا کے میں
بڑھنے لگا تھا نشۂ تخلیق آب و خاک
وہ چاک اٹھا کے چل دیا کوزہ اٹھا کے میں
ہے ساعت وصال کے ملنے پہ منحصر
کس سمت بھاگتا ہوں یہ لمحہ اٹھا کے میں
قربت پسند دل کی طبیعت میں تھا تضاد
خوش ہو رہا ہوں ہجر کا صدمہ اٹھا میں
اب مجھ کو اہتمام سے کیجے سپرد خاک
اکتا چکا ہوں جسم کا ملبہ اٹھا کے میں
اچھا بھلا تو تھا تن تنہا جہان میں
پچھتا رہا ہوں خلق کا بیڑا اٹھا کے میں
آزرؔ مجھے مدینے سے ہجرت کا حکم تھا
صحرا میں لے کے آ گیا خیمہ اٹھا کے میں
غزل
کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں
دلاور علی آزر