EN हिंदी
لمحہ لمحہ وسعت کون و مکاں کی سیر کی | شیح شیری
lamha lamha wusat-e-kaun-o-makan ki sair ki

غزل

لمحہ لمحہ وسعت کون و مکاں کی سیر کی

دلاور علی آزر

;

لمحہ لمحہ وسعت کون و مکاں کی سیر کی
آ گیا سو خوب میں نے خاکداں کی سیر کی

ایک لمحے کے لیے تنہا نہیں ہونے دیا
خود کو اپنے ساتھ رکھا جس جہاں کی سیر کی

تجھ سے مل کر آج اندازہ ہوا ہے زندگی
پہلے جتنی کی وہ گویا رائیگاں کی سیر کی

نیند سے جاگے ہیں کوئی خواب بھی دیکھا ہے کیا
دیکھا ہے تو بولئے شب بھر کہاں کی سیر کی

تھک گیا تھا میں بدن میں رہتے رہتے ایک دن
بھاگ نکلا اور جا کر آسماں کی سیر کی

یاد ہے اک ایک گوشہ نقش ہے دل پر ہنوز
سیر تو وہ ہے جو شہر دلبراں کی سیر کی

پھول حیرت سے ہمیں دیکھا کیے وقت وصال
گل بدن کے ساتھ آزرؔ گلستاں کی سیر کی