EN हिंदी
ہوا نے اسم کچھ ایسا پڑھا تھا | شیح شیری
hawa ne ism kuchh aisa paDha tha

غزل

ہوا نے اسم کچھ ایسا پڑھا تھا

دلاور علی آزر

;

ہوا نے اسم کچھ ایسا پڑھا تھا
دیا دیوار پر چلنے لگا تھا

میں سحر خواب سے اٹھا تو دیکھا
کوئی کھڑکی میں سورج رکھ گیا تھا

کھڑا تھا منتظر دہلیز پر میں
مجھے اک سایہ ملنے آ رہا تھا

ترے آنے سے یہ عقدہ کھلا ہے
میں اپنے آپ میں رکھا ہوا تھا

سبھی لفظوں سے تصویریں بنائیں
مری پوروں میں منظر رینگتا تھا

مجھے تیرے ارادوں کی خبر تھی
سو گہری نیند میں بھی جاگتا تھا

میں جب میدان خالی کر کے آیا
مرا دشمن اکیلا رہ گیا تھا

سبھی کے ہاتھ میں پتھر تھے آذرؔ
ہمارے ہاتھ میں اک آئینا تھا