EN हिंदी
کچھ بھی نہیں ہے خاک کے آزار سے پرے | شیح شیری
kuchh bhi nahin hai KHak ke aazar se pare

غزل

کچھ بھی نہیں ہے خاک کے آزار سے پرے

دلاور علی آزر

;

کچھ بھی نہیں ہے خاک کے آزار سے پرے
دیکھا ہے میں نے بارہا اس پار سے پرے

اک نقش کھینچتا ہے مجھے خواب سے ادھر
اک دائرہ بنا ہوا پرکار سے پرے

یارب نگاہ شوق کو وسعت نصیب ہو
میری نظر پہ بار ہے دیوار سے پرے

تم خود ہی داستان بدلتے ہو دفعتاً
ہم ورنہ دیکھتے نہیں کردار سے پرے

کچھ لفظ جن کو اب کوئی ترتیب چاہیئے
گزرے ہوئے خیال کے اظہار سے پرے

آزرؔ اب ان کا نام و نشاں مل نہیں رہا
اڑتا ہوا غبار ہے کہسار سے پرے