کچھ بھی نہیں ہے خاک کے آزار سے پرے
دیکھا ہے میں نے بارہا اس پار سے پرے
اک نقش کھینچتا ہے مجھے خواب سے ادھر
اک دائرہ بنا ہوا پرکار سے پرے
یارب نگاہ شوق کو وسعت نصیب ہو
میری نظر پہ بار ہے دیوار سے پرے
تم خود ہی داستان بدلتے ہو دفعتاً
ہم ورنہ دیکھتے نہیں کردار سے پرے
کچھ لفظ جن کو اب کوئی ترتیب چاہیئے
گزرے ہوئے خیال کے اظہار سے پرے
آزرؔ اب ان کا نام و نشاں مل نہیں رہا
اڑتا ہوا غبار ہے کہسار سے پرے
غزل
کچھ بھی نہیں ہے خاک کے آزار سے پرے
دلاور علی آزر