EN हिंदी
عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں | شیح شیری
ajib rang ajab haal mein paDe hue hain

غزل

عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں

دلاور علی آزر

;

عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
ہم اپنے عہد کی پاتال میں پڑے ہوئے ہیں

سخن سرائی کوئی سہل کام تھوڑی ہے
یہ لوگ کس لیے جنجال میں پڑے ہوئے ہیں

اٹھا کے ہاتھ پہ دنیا کو دیکھ سکتا ہوں
سبھی نظارے بس اک تھال میں پڑے ہوئے ہیں

جہاں بھی چاہوں میں منظر اٹھا کے لے جاؤں
کہ خواب دیدۂ اموال میں پڑے ہوئے ہیں

میں شام ہوتے ہی گردوں پہ ڈال آتا ہوں
ستارے لپٹی ہوئی شال میں پڑے ہوئے ہیں

وہ تو کہ اپنے تئیں کر چکا ہمیں تکمیل
یہ ہم کہ فکر خد و خال میں پڑے ہوئے ہیں

اسی لیے یہ وطن چھوڑ کر نہیں جاتے
کہ ہم تصور اقبالؔ میں پڑے ہوئے ہیں

ثواب ہی تو نہیں جن کا پھل ملے گا مجھے
گناہ بھی مرے اعمال میں پڑے ہوئے ہیں

تمام عکس مری دسترس میں ہیں آزرؔ
یہ آئنے مری تمثال میں پڑے ہوئے ہیں