بوجھ اٹھائے ہوئے دن رات کہاں تک جاتا
زندگانی میں ترے ساتھ کہاں تک جاتا
مختصر یہ کہ میں بوسہ بھی غنیمت سمجھا
یوں بھی دوران ملاقات کہاں تک جاتا
صبح ہوتے ہی سبھی گھر کو روانہ ہوں گے
قصۂ دور خرابات کہاں تک جاتا
تھک گیا تھا میں ترے نام کو جپتے جپتے
لے کے ہونٹوں پہ یہی بات کہاں تک جاتا
چاند تارے تو مرے بس میں نہیں ہیں آزرؔ
پھول لایا ہوں مرا ہاتھ کہاں تک جاتا
غزل
بوجھ اٹھائے ہوئے دن رات کہاں تک جاتا
دلاور علی آزر