درون خواب نیا اک جہاں نکلتا ہے
زمیں کی تہہ سے کوئی آسماں نکلتا ہے
بھلا نظر بھی وہ آئے تو کس طرح آئے
مرا ستارہ پس کہکشاں نکلتا ہے
ہوائے شوق یہ منزل سے جا کے کہہ دینا
ذرا سی دیر ہے بس کارواں نکلتا ہے
مری زمین پہ سورج بہ وقت صبح و مسا
نکل تو آتا ہے لیکن کہاں نکلتا ہے
یہ جس وجود پہ تم ناز کر رہے ہو بہت
یہی وجود بہت رائگاں نکلتا ہے
مقام وصل اک ایسا مقام ہے کہ جہاں
یقین کرتے ہیں جس پر گماں نکلتا ہے
بدن کو چھوڑ ہی جانا ہے روح نے آزرؔ
ہر اک چراغ سے آخر دھواں نکلتا ہے
غزل
درون خواب نیا اک جہاں نکلتا ہے
دلاور علی آزر