اپنی دیواروں سے کچھ باہر نکل
صرف خالی گھر کے بام و در نہ دیکھ
چندر بھان خیال
ہمارے گھر کے آنگن میں ستارے بجھ گئے لاکھوں
ہماری خواب گاہوں میں نہ چمکا صبح کا سورج
چندر بھان خیال
انسان کی دنیا میں انساں ہے پریشاں کیوں
مچھلی تو نہیں ہوتی بے چین کبھی جل میں
چندر بھان خیال
کر گیا سورج سبھی کو بے لباس
اب کوئی سایہ کوئی پیکر نہ دیکھ
چندر بھان خیال
کون دہشت گرد ہے اور کون ہے دہشت زدہ
یہ سب اک ابہام پیہم کے سوا کچھ بھی نہیں
چندر بھان خیال
کوئی دانا کوئی دیوانہ ملا
شہر میں ہر شخص بیگانہ ملا
چندر بھان خیال
کیا اسی کا نام ہے رعنائیٔ بزم حیات
تنگ کمرہ سرد بستر اور تنہا آدمی
چندر بھان خیال
لے گیا وہ چھین کر میری جوانی
اس پہ بس یوں ہی جھپٹ کر رہ گیا میں
چندر بھان خیال
لوگ منزل کی طرف لپکے ہیں لیکن
بھیڑ میں غفلت بھی شامل ہو گئی ہے
چندر بھان خیال