خول کے اندر سمٹ کر رہ گیا میں
اپنے سائے سے بھی کٹ کر رہ گیا میں
لے گیا وہ چھین کر میری جوانی
اس پہ بس یوں ہی جھپٹ کر رہ گیا میں
جب کبھی نکلا جلوس رنگ و نکہت
ٹوٹی دیواروں سے سٹ کر رہ گیا میں
چل رہا تھا وہ مرے شانہ بہ شانہ
خود ہی اس سے دور ہٹ کر رہ گیا میں
اس نے مٹھی بھر مجھے اونچا کیا جب
اور بھی اک ہاتھ گھٹ کر رہ گیا میں
چاہ تھی گھل جاؤں سارے منظروں میں
حیف کچھ لوگوں میں بٹ کر رہ گیا میں
بارہا ایسا ہوا محسوس جیسے
آسمانوں سے لپٹ کر رہ گیا میں
غزل
خول کے اندر سمٹ کر رہ گیا میں
چندر بھان خیال