گھڑی بھر خلوتوں کو آنچ دے کر بجھ گیا سورج
کسی کے درد کی لے پر کہاں تک ناچتا سورج
نگاہوں میں نئے انداز سے پھر روشنی ہوگی
جب اگ آئے گا ذہنوں میں ہمارے اک نیا سورج
زمیں کا کرب اوج آسماں پر بھی جھلک اٹھا
نشیب کوہ پر جرأت سے جب جب آ ملا سورج
ہمارے گھر کے آنگن میں ستارے بجھ گئے لاکھوں
ہماری خواب گاہوں میں نہ چمکا صبح کا سورج
شبستاں در شبستاں ظلمتوں کی ایک یورش ہے
ہر اک دامن سے لپٹا ہے لرزتا ہانپتا سورج
ہمارے بام در سے آج بھی لپٹی ہے تاریکی
ہمارے آسمانوں میں بتاؤ کب اگا سورج
سنا دی داستاں اپنی جو ہم نے بے زباں ہو کر
مثال قطرہ شبنم بکھر کر رو پڑا سورج

غزل
گھڑی بھر خلوتوں کو آنچ دے کر بجھ گیا سورج
چندر بھان خیال