EN हिंदी
چلچلاتی دھوپ سر پر اور تنہا آدمی | شیح شیری
chilchilati dhup sar par aur tanha aadmi

غزل

چلچلاتی دھوپ سر پر اور تنہا آدمی

چندر بھان خیال

;

چلچلاتی دھوپ سر پر اور تنہا آدمی
آہ یہ خاموش پتھر اور تنہا آدمی

جس طرح اک برف کے ٹیلے پہ جلتی ہو چتا
یہ پگھلتا موم سا گھر اور تنہا آدمی

اس حصار خامشی میں برسر پیکار ہیں
تیز آوازوں کے لشکر اور تنہا آدمی

کیا اسی کا نام ہے رعنائیٔ بزم حیات
تنگ کمرہ سرد بستر اور تنہا آدمی

کس طرح آباد ہوگی دل کی سونی کائنات
ڈوبتے مجروح منظر اور تنہا آدمی

ہائے ان بیکار ذہنوں کی گھنی پرچھائیاں
اف یہ سناٹے کا اجگر اور تنہا آدمی

رات کے ننگے بدن سے خواہشوں کی چھیڑ چھاڑ
ہر گھڑی انجام کا ڈر اور تنہا آدمی