EN हिंदी
پھر لوٹ کے آیا ہوں تنہائی کے جنگل میں | شیح شیری
phir lauT ke aaya hun tanhai ke jangal mein

غزل

پھر لوٹ کے آیا ہوں تنہائی کے جنگل میں

چندر بھان خیال

;

پھر لوٹ کے آیا ہوں تنہائی کے جنگل میں
اک شہر تصور ہے احساس کے ہر پل میں

تو مصر کی ملکہ ہے میں یوسف کنعاں ہوں
افسوس مگر گم ہیں تفریق کے دلدل میں

انسان کی دنیا میں انساں ہے پریشاں کیوں
مچھلی تو نہیں ہوتی بے چین کبھی جل میں

ہر فکر کے چہرے پر سو زخم ہیں ماضی کے
اک لفظ نہیں زندہ آواز کے مقتل میں

چٹکی میں مسلتے ہیں تنکے بھی پہاڑوں کو
جب خون سمٹتا ہے مظلوم کے آنچل میں

پھر چھوڑ دیا تنہا دنیا نے خیالؔ ہم کو
پھر ذہن پریشاں ہے جذبات کی ہلچل میں