پھر لوٹ کے آیا ہوں تنہائی کے جنگل میں
اک شہر تصور ہے احساس کے ہر پل میں
تو مصر کی ملکہ ہے میں یوسف کنعاں ہوں
افسوس مگر گم ہیں تفریق کے دلدل میں
انسان کی دنیا میں انساں ہے پریشاں کیوں
مچھلی تو نہیں ہوتی بے چین کبھی جل میں
ہر فکر کے چہرے پر سو زخم ہیں ماضی کے
اک لفظ نہیں زندہ آواز کے مقتل میں
چٹکی میں مسلتے ہیں تنکے بھی پہاڑوں کو
جب خون سمٹتا ہے مظلوم کے آنچل میں
پھر چھوڑ دیا تنہا دنیا نے خیالؔ ہم کو
پھر ذہن پریشاں ہے جذبات کی ہلچل میں

غزل
پھر لوٹ کے آیا ہوں تنہائی کے جنگل میں
چندر بھان خیال