زندگانی رنج اور غم کے سوا کچھ بھی نہیں
اف کہ ہر دم سوگ و ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں
روز و شب اپنے گزر جانا دیار غیر میں
داستان عزم محکم کے سوا کچھ بھی نہیں
کون دہشت گرد ہے اور کون ہے دہشت زدہ
یہ سب اک ابہام پیہم کے سوا کچھ بھی نہیں
گونجتی ہے خامشی ہر دم جو میرے چار سو
در حقیقت شور عالم کے سوا کچھ بھی نہیں
تم جسے سمجھے ہو دنیا اس کے آنچل کے تلے
گیسوؤں کے پیچ اور خم کے سوا کچھ بھی نہیں
دیکھتا رہتا ہے بندوں پر مسلسل سختیاں
کیا خدا اک اسم اعظم کے سوا کچھ بھی نہیں
دیوتا سی فکر اور طرز عمل کے باوجود
آدمی بس ابن آدم کے سوا کچھ بھی نہیں

غزل
زندگانی رنج اور غم کے سوا کچھ بھی نہیں
چندر بھان خیال