بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
بیدل حیدری
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بیدل حیدری
ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے
وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
بیدل حیدری
ہو گیا چرخ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا
مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچے
بیدل حیدری
جتنا ہنگامہ زیادہ ہوگا
آدمی اتنا ہی تنہا ہوگا
بیدل حیدری
کہیں انتہا کی ملامتیں کہیں پتھروں سے اٹی چھتیں
ترے شہر میں مرے بعد اب کوئی سر پھرا نہیں آئے گا
بیدل حیدری
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں
بیدل حیدری
میرے اندر کا پانچواں موسم
کس نے دیکھا ہے کس نے جانا ہے
بیدل حیدری
رات کو روز ڈوب جاتا ہے
چاند کو تیرنا سکھانا ہے
بیدل حیدری