مری داستان الم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
مرا مدعا نہیں آئے گا ترا تذکرہ نہیں آئے گا
کئی گھاٹیوں پہ محیط ہے مری زندگی کی یہ رہ گزر
تری واپسی بھی ہوئی اگر تجھے راستہ نہیں آئے گا
اگر آئے دشت میں جھیل تو مجھے احتیاط سے پھینکنا
کہ میں برگ خشک ہوں دوستو مجھے تیرنا نہیں آئے گا
اگر آئے دن تری راہ میں تری کھوج میں تری چاہ میں
یوں ہی قافلے جو لٹا کئے کوئی قافلہ نہیں آئے گا
کہیں انتہا کی ملامتیں کہیں پتھروں سے اٹی چھتیں
ترے شہر میں مرے بعد اب کوئی سر پھرا نہیں آئے گا
کوئی انتظار کا فائدہ مرے یار بیدلؔ غمزدہ
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا نہیں آئے گا نہیں آئے گا
غزل
مری داستان الم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
بیدل حیدری