EN हिंदी
دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا | شیح شیری
dariya ne kal jo chup ka libaada pahan liya

غزل

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا

بیدل حیدری

;

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا

وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا

فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

بیدلؔ لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا