یہ جو چہروں پہ لئے گرد الم آتے ہیں
یہ تمہارے ہی پشیمان کرم آتے ہیں
اتنا کھل کر بھی نہ رو جسم کی بستی کو بچا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں
تو سنا تیری مسافت کی کہانی کیا ہے
میرے رستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں
وہ تو بیدلؔ کوئی سوکھا ہوا پتا ہوگا
تیرے آنگن میں کہاں ان کے قدم آتے ہیں
غزل
یہ جو چہروں پہ لئے گرد الم آتے ہیں
بیدل حیدری