آئینہ کیا کس کو دکھاتا گلی گلی حیرت بکتی تھی
نقاروں کا شور تھا ہر سو سچے سب اور جھوٹا میں
باقر مہدی
آزما لو کہ دل کو چین آئے
یہ نہ کہنا کہیں وفا ہی نہیں
باقر مہدی
ایسی بیگانگی نہیں دیکھی
اب کسی کا کوئی یہاں نہ رہا
باقر مہدی
چلے تو جاتے ہو روٹھے ہوئے مگر سن لو
ہر ایک موڑ پہ کوئی تمہیں صدا دے گا
باقر مہدی
دامن صبر کے ہر تار سے اٹھتا ہے دھواں
اور ہر زخم پہ ہنگامہ اٹھا آج بھی ہے
باقر مہدی
ایک طوفاں کی طرح کب سے کنارہ کش ہے
پھر بھی باقرؔ مری نظروں میں بھرم ہے اس کا
باقر مہدی
فاصلے ایسے کہ اک عمر میں طے ہو نہ سکیں
قربتیں ایسی کہ خود مجھ میں جنم ہے اس کا
باقر مہدی
ہم ملیں یا نہ ملیں پھر بھی کبھی خوابوں میں
مسکراتی ہوئی آئیں گی ہماری باتیں
باقر مہدی
اس شہر میں ہے کون ہمارا ترے سوا
یہ کیا کہ تو بھی اپنا کبھی ہمنوا نہ ہو
باقر مہدی