برسوں پڑھ کر سرکش رہ کر زخمی ہو کر سمجھا میں
ہر کوچہ ہے کوچۂ قاتل زخمی ہو کر سنبھلا میں
طوفانی جذبوں سے بچ کر دور تلک کیسے جاتا؟
ایک جزیرہ بن کر آخر لہروں لہروں ٹھہرا میں
کتنے آدرشوں کے شیشے رگ رگ میں آزار بنے
لڑتے لڑتے تھک کر دیکھا سایہ تھا اور تنہا میں
آئینہ کیا کس کو دکھاتا گلی گلی حیرت بکتی تھی
نقاروں کا شور تھا ہر سو سچے سب اور جھوٹا میں
باقرؔ تیز شعاعوں سے سب مومی چہرے پگھل گئے
صبح تلک پتھریلے غم تھے اور تھا ٹوٹا پھوٹا میں
غزل
برسوں پڑھ کر سرکش رہ کر زخمی ہو کر سمجھا میں
باقر مہدی