EN हिंदी
جو زمانے کا ہم زباں نہ رہا | شیح شیری
jo zamane ka ham-zaban na raha

غزل

جو زمانے کا ہم زباں نہ رہا

باقر مہدی

;

جو زمانے کا ہم زباں نہ رہا
وہ کہیں بھی تو کامراں نہ رہا

اس طرح کچھ بدل گئی ہے زمیں
ہم کو اب خوف آسماں نہ رہا

جانے کن مشکلوں سے جیتے ہیں
کیا کریں کوئی مہرباں نہ رہا

ایسی بیگانگی نہیں دیکھی
اب کسی کا کوئی یہاں نہ رہا

ہر جگہ بجلیوں کی یورش ہے
کیا کہیں اپنا آشیاں نہ رہا

مفلسی کیا گلہ کریں تجھ سے
ساتھ تیرا کہاں کہاں نہ رہا

حسرتیں بڑھ کے چومتی ہیں قدم
منزلوں کا کوئی نشاں نہ رہا

خون دل اپنا جل رہا ہے مگر
شمع کے سر پہ وہ دھواں نہ رہا

غم نہیں ہم تباہ ہو کے رہے
حادثہ بھی تو ناگہاں نہ رہا

قافلے خود سنبھل سنبھل کے بڑھے
جب کوئی میر کارواں نہ رہا