درد دل آج بھی ہے جوش وفا آج بھی ہے
زخم کھانے کا محبت میں مزا آج بھی ہے
گرمئ عشق نگاہوں میں نہیں ہے نہ سہی
مسکراتی ہوئی آنکھوں میں حیا آج بھی ہے
حسن پابند قفس عشق اسیر آلام
زندگی جرم محبت کی سزا آج بھی ہے
حسرتیں زیست کا سرمایہ بنی جاتی ہیں
سینۂ عشق پہ وہ مشق جفا آج بھی ہے
دامن صبر کے ہر تار سے اٹھتا ہے دھواں
اور ہر زخم پہ ہنگامہ اٹھا آج بھی ہے
اپنے آلام و مصائب کا وہی درماں ہے
درد کا حد سے گزرنا ہی دوا آج بھی ہے
میرؔ و غالبؔ کے زمانے سے نئے دور تلک
شاعر ہند گرفتار بلا آج بھی ہے
غزل
درد دل آج بھی ہے جوش وفا آج بھی ہے
باقر مہدی