دشمن جاں کوئی بنا ہی نہیں
اتنے ہم لائق جفا ہی نہیں
آزما لو کہ دل کو چین آئے
یہ نہ کہنا کہیں وفا ہی نہیں
ہم پشیماں ہیں وہ بھی حیراں ہیں
ایسا طوفاں کبھی اٹھا ہی نہیں
جانے کیوں ان سے ملتے رہتے ہیں
خوش وہ کیا ہوں گے جب خفا ہی نہیں
تم نے اک داستاں بنا ڈالی
ہم نے تو راز غم کہا ہی نہیں
غم گسار اس طرح سے ملتے ہیں
جیسے دنیا میں کچھ ہوا ہی نہیں
اے جنوں کون سی یہ منزل ہے
کیا کریں کچھ ہمیں پتا ہی نہیں
موت کے دن قریب آ پہنچے
ہائے ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں
غزل
دشمن جاں کوئی بنا ہی نہیں
باقر مہدی