EN हिंदी
باقر مہدی شیاری | شیح شیری

باقر مہدی شیر

20 شیر

جانے کن مشکلوں سے جیتے ہیں
کیا کریں کوئی مہرباں نہ رہا

باقر مہدی




آئینہ کیا کس کو دکھاتا گلی گلی حیرت بکتی تھی
نقاروں کا شور تھا ہر سو سچے سب اور جھوٹا میں

باقر مہدی




اس شہر میں ہے کون ہمارا ترے سوا
یہ کیا کہ تو بھی اپنا کبھی ہمنوا نہ ہو

باقر مہدی




ہم ملیں یا نہ ملیں پھر بھی کبھی خوابوں میں
مسکراتی ہوئی آئیں گی ہماری باتیں

باقر مہدی




فاصلے ایسے کہ اک عمر میں طے ہو نہ سکیں
قربتیں ایسی کہ خود مجھ میں جنم ہے اس کا

باقر مہدی




ایک طوفاں کی طرح کب سے کنارہ کش ہے
پھر بھی باقرؔ مری نظروں میں بھرم ہے اس کا

باقر مہدی




دامن صبر کے ہر تار سے اٹھتا ہے دھواں
اور ہر زخم پہ ہنگامہ اٹھا آج بھی ہے

باقر مہدی




چلے تو جاتے ہو روٹھے ہوئے مگر سن لو
ہر ایک موڑ پہ کوئی تمہیں صدا دے گا

باقر مہدی




ایسی بیگانگی نہیں دیکھی
اب کسی کا کوئی یہاں نہ رہا

باقر مہدی