کسی پہ کوئی بھروسہ کرے تو کیسے کرے
کہ آنسوؤں کے سوا اور کوئی کیا دے گا
بہت ہوا تو تبسم کے چند پھولوں کو
نگاہ شوخ کے ہاتھوں سے بے وفا دے گا
چلے تو جاتے ہو روٹھے ہوئے مگر سن لو
ہر ایک موڑ پہ کوئی تمہیں صدا دے گا
عجیب منزل حیرت میں ہے جہان خراب
کہ جیسے ہم سے دوانوں کو بھی سزا دے گا
ہمارے شعر میں پنہاں ہے روشنی غم کی
ذرا سنو تو سر شام یہ ضیا دے گا
غزل
کسی پہ کوئی بھروسہ کرے تو کیسے کرے (ردیف .. ا)
باقر مہدی