آگہی نے دیئے ابہام کے دھوکے کیا کیا
شرح الفاظ جو لکھی تو اشارے لکھے
عذرا وحید
بادلوں کی آس اس کے ساتھ ہی رخصت ہوئی
شہر کو وہ آگ کی بے رحمیاں بھی دے گیا
عذرا وحید
دلوں میں تلخیاں پھر بھی نظر میں مسکراہٹ ہو
بلا کے حبس میں بھی ہو ہوا ایسا بھی ہوتا ہے
عذرا وحید
لہو رلاتے ہیں اور پھر بھی یاد آتے ہیں
محبتوں کے پرانے نصاب سے کچھ ہیں
عذرا وحید
میں کون ہوں کہ ہے سب کانچ کا وجود مرا
مرا لباس بھی میلا دکھائی دیتا ہے
عذرا وحید
نمو کے رب کبھی اس منصفی کی داد تو دے
شجر کوئی نہ لگایا ثمر سمیٹا ہے
عذرا وحید
تجھ کو پائیں تجھے کھو بیٹھیں پھر
زندگی ایک تھی ڈر کتنے تھے
عذرا وحید
اس رات کے ماتھے پر ابھریں گے ستارے بھی
یہ خوف اندھیروں کا شاداب نہیں رہنا
عذرا وحید