EN हिंदी
غبار جاں پس دیوار و در سمیٹا ہے | شیح شیری
ghubar-e-jaan pas-e-diwar-o-dar sameTa hai

غزل

غبار جاں پس دیوار و در سمیٹا ہے

عذرا وحید

;

غبار جاں پس دیوار و در سمیٹا ہے
دیار سنگ میں شیشے کا گھر سمیٹا ہے

سمندروں میں بھی سورج نے بو دیئے ہیں سراب
گئے تھے سیپ اٹھانے بھنور سمیٹا ہے

صعوبتوں کی کوئی حد نہ آخری دیکھی
ہر ایک راہ میں زاد سفر سمیٹا ہے

محبتوں نے دیا ہے صداقتوں کا شعور
بکھر گیا ہے جب اک بار گھر سمیٹا ہے

ہوا کے ساتھ سفر میں قباحتیں تھیں بہت
مثال ابر بکھرتا نگر سمیٹا ہے

اندھیری رات میں سورج کی جستجو کی ہے
ہواؤں میں بھی چراغ نظر سمیٹا ہے

جو شاخ شاخ پرندوں کا آشیانہ تھا
وہ برگ برگ پرانا شجر سمیٹا ہے

نمو کے رب کبھی اس منصفی کی داد تو دے
شجر کوئی نہ لگایا ثمر سمیٹا ہے