فضا کا رنگ نکھرتا دکھائی دیتا ہے
ہے شب تمام کہ سپنا دکھائی دیتا ہے
لہو کا رنگ ہے مٹ کر بھی رنگ لائے گا
افق کا رنگ سنہرا دکھائی دیتا ہے
وہ جس نے دھوپ کے میلے کو چھت مہیا کی
سڑک پہ اس کا بسیرا دکھائی دیتا ہے
میں کون ہوں کہ ہے سب کانچ کا وجود مرا
مرا لباس بھی میلا دکھائی دیتا ہے
سراب لب پہ سجائے ہر ایک پھرتا ہے
مجھے تو شہر بھی صحرا دکھائی دیتا ہے
تنے کو چھوڑ کے پتوں کو تھامنے والو
تمہیں شجر بھی تماشا دکھائی دیتا ہے
ابھی سے کشتیاں ساحل پہ لے چلے لوگو
ابھی سے تم کو کنارا دکھائی دیتا ہے
وہ سونپ جاتا ہے مجھ کو ہوا کے ہاتھوں میں
اسی کا مجھ کو سہارا دکھائی دیتا ہے
غزل
فضا کا رنگ نکھرتا دکھائی دیتا ہے
عذرا وحید