تاریک اجالوں میں بے خواب نہیں رہنا
اس زیست کے دریا کو پایاب نہیں رہنا
سرسبز جزیروں کی ابھرے گی شباہت بھی
اس زیست سمندر کو بے آب نہیں رہنا
اس ہجر مسلسل کی عادت بھی کبھی ہوگی
ہونٹوں پہ صدا غم کا زہراب نہیں رہنا
چھن چھن کے بہے گا دن بادل کی رداؤں سے
سورج کی شعاعوں کو نایاب نہیں رہنا
اس رات کے ماتھے پر ابھریں گے ستارے بھی
یہ خوف اندھیروں کا شاداب نہیں رہنا
غزل
تاریک اجالوں میں بے خواب نہیں رہنا
عذرا وحید