ہوا کے لب پہ نئے انتساب سے کچھ ہیں
کہ شاخ وصل پہ تازہ گلاب سے کچھ ہیں
یہ پل کا قصہ ہے صدیوں پہ جو محیط رہا
بر آب ساعت گزراں حباب سے کچھ ہیں
ہجوم ہم کو سر آنکھوں پہ کیوں بٹھائے رہا
دل و نظر پہ ہمارے عذاب سے کچھ ہیں
لہو رلاتے ہیں اور پھر بھی یاد آتے ہیں
محبتوں کے پرانے نصاب سے کچھ ہیں
اترتے رہتے ہیں آنکھوں کے آئنوں پہ سدا
کتاب خستہ میں گم گشتہ باب سے کچھ ہیں
سوائے تشنگی کچھ اور دے سکے نہ ہمیں
جو زیر آب چمکتے سراب سے کچھ ہیں
مدام ان کو چمکنا بغیر خوف فنا
یہ آسمان پہ جو بے حساب سے کچھ ہیں
غزل
ہوا کے لب پہ نئے انتساب سے کچھ ہیں
عذرا وحید