مسئلے زیر نظر کتنے تھے
اہل دل اہل ہنر کتنے تھے
حشر آئے تو یہی فیصلہ ہو
کتنے انساں تھے بشر کتنے تھے
کاسۂ چشم میں امید لئے
جو بھی تھے خاک بسر کتنے تھے
ساری بستی میں مکاں تھے بے حد
جو کھلے رہتے تھے در کتنے تھے
وہ جو آسائشوں میں تلتے تھے
سنگ مرمر کے وہ گھر کتنے تھے
تجھ کو پائیں تجھے کھو بیٹھیں پھر
زندگی ایک تھی ڈر کتنے تھے
کتنے دریا تھے کنارے کتنے
منزلیں کتنی سفر کتنے تھے
ہر طرف دھوپ کی یلغاریں تھیں
ہر طرف موم کے گھر کتنے تھے
کتنی آنکھوں نے گواہی دی تھی
دھوپ کتنی تھی شجر کتنے تھے
کتنے شبخون ابھی تاک میں ہیں
لٹ گئے تھے جو نگر کتنے تھے
وقت کی گرد یہ قدموں کے نشاں
سوچ لو بار دگر کتنے تھے
کچی بستی کے مکیں بھی گن لو
شہر میں صاحب زر کتنے تھے
غزل
مسئلے زیر نظر کتنے تھے
عذرا وحید