گرے قطروں میں پتھر پر صدا ایسا بھی ہوتا ہے
بھلا ہو کر بھلا نام خدا ایسا بھی ہوتا ہے
دلوں میں تلخیاں پھر بھی نظر میں مسکراہٹ ہو
بلا کے حبس میں بھی ہو ہوا ایسا بھی ہوتا ہے
میں خود سے اجنبی ہو کر قبائے خوش دلی پہنوں
مرے اندر رہے کوئی چھپا ایسا بھی ہوتا ہے
کنار آب دجلہ دھوپ تپتی ہو قیامت کی
ہر اک ذرہ بنے کرب و بلا ایسا بھی ہوتا ہے
کبھی تنہائیوں میں خود کلامی اور پھر ہنسنا
مجھے راس آئے یہ آب و ہوا ایسا بھی ہوتا ہے
سبھی پڑھ کر پھر اپنی راہ ہو لیتے ہیں بستی میں
سر دیوار کچھ مبہم لکھا ایسا بھی ہوتا ہے
بچا لوں نوح کے بیڑے کو طوفانوں کی شدت سے
بڑھا بہر مدد خود کبریا ایسا بھی ہوتا ہے
غزل
گرے قطروں میں پتھر پر صدا ایسا بھی ہوتا ہے
عذرا وحید