پر صعوبت راستوں کی گرمیاں بھی دے گیا
آنے والی چھاؤں کی خوش فہمیاں بھی دے گیا
سخت بیجوں سے سنہری بالیاں بھی بھر گئیں
گرم جھونکا موسموں کی سختیاں بھی دے گیا
بادلوں کی آس اس کے ساتھ ہی رخصت ہوئی
شہر کو وہ آگ کی بے رحمیاں بھی دے گیا
احتساب اس کا عمل تھا اس سے وہ فارغ ہوا
وقت سڑکوں کو لٹی شہزادیاں بھی دے گیا
بے بسی اور بھوک میں جو حوصلے دیتا رہا
پیار کرنے کی مجھے کمزوریاں بھی دے گیا
ٹہنیاں پھولوں سے لد کر رب کے آگے جھک گئیں
موسم گل جاتے جاتے تتلیاں بھی دے گیا
آسماں نے ماں زمیں کی گود تو بھر دی مگر
دے کے بیٹے ان کو کچھ نا سمجھیاں بھی دے گیا
غزل
پر صعوبت راستوں کی گرمیاں بھی دے گیا
عذرا وحید