اندھیرے میں تجسس کا تقاضا چھوڑ جانا ہے
کسی دن خامشی میں خود کو تنہا چھوڑ جانا ہے
اشعر نجمی
بہت محتاط ہو کر سانس لینا معتبر ہو تم
ہمارا کیا ہے ہم تو خود ہی اپنی رد میں رہتے ہیں
اشعر نجمی
کینوس پر ہے یہ کس کا پیکر حرف و صدا
اک نمود آرزو جو بے نشاں ہے اور بس
اشعر نجمی
میں نے بھی پرچھائیوں کے شہر کی پھر راہ لی
اور وہ بھی اپنے گھر کا ہو گیا ہونا ہی تھا
اشعر نجمی
نہ جانے کب کوئی آ کر مری تکمیل کر جائے
اسی امید پہ خود کو ادھورا چھوڑ جانا ہے
اشعر نجمی
ناتمامی کے شرر میں روز و شب جلتے رہے
سچ تو یہ ہے بے زباں میں بھی نہیں تو بھی نہیں
اشعر نجمی
رفتہ رفتہ ختم قصہ ہو گیا ہونا ہی تھا
وہ بھی آخر میرے جیسا ہو گیا ہونا ہی تھا
اشعر نجمی
رستے فرار کے سبھی مسدود تو نہ تھے
اپنی شکست کا مجھے کیوں اعتراف تھا
اشعر نجمی
سروں کے بوجھ کو شانوں پہ رکھنا معجزہ بھی ہے
ہر اک پل ورنہ ہم بھی حلقۂ سرمد میں رہتے ہیں
اشعر نجمی