EN हिंदी
اشعر نجمی شیاری | شیح شیری

اشعر نجمی شیر

15 شیر

سونپو گے اپنے بعد وراثت میں کیا مجھے
بچے کا یہ سوال ہے گونگے سماج سے

اشعر نجمی




شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا
ورنہ اداس رات کا چہرہ تو صاف تھا

اشعر نجمی




تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا
لیکن یہ استعارہ بھی منظوم کب ہوا

اشعر نجمی




تم بھی تھے سرشار میں بھی غرق بحر رنگ و بو
پھر بھلا دونوں میں آخر خود کشیدہ کون تھا

اشعر نجمی




وہ جن کی ہجرتوں کے آج بھی کچھ داغ روشن ہیں
انہی بچھڑے پرندوں کو شجر واپس بلاتا ہے

اشعر نجمی




زہر میں ڈوبی ہوئی پرچھائیوں کا رقص ہے
خود سے وابستہ یہاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

اشعر نجمی