EN हिंदी
عارف عبدالمتین شیاری | شیح شیری

عارف عبدالمتین شیر

8 شیر

چاند میرے گھر میں اترا تھا کہیں ڈوبا نہ تھا
اے مرے سورج ابھی آنا ترا اچھا نہ تھا

عارف عبدالمتین




ہمیں نے راستوں کی خاک چھانی
ہمیں آئے ہیں تیرے پاس چل کے

عارف عبدالمتین




کبھی خیال کے رشتوں کو بھی ٹٹول کے دیکھ
میں تجھ سے دور سہی تجھ سے کچھ جدا بھی نہیں

عارف عبدالمتین




تھا اعتماد حسن سے تو اس قدر تہی
آئینہ دیکھنے کا تجھے حوصلہ نہ تھا

عارف عبدالمتین




تیرہ و تار خلاؤں میں بھٹکتا رہا ذہن
رات صحرائے انا سے میں ہراساں گزرا

عارف عبدالمتین




تتلیاں رنگوں کا محشر ہیں کبھی سوچا نہ تھا
ان کو چھونے پر کھلا وہ راز جو کھلتا نہ تھا!

عارف عبدالمتین




وفا نگاہ کی طالب ہے امتحاں کی نہیں
وہ میری روح میں جھانکے نہ آزمائے مجھے

عارف عبدالمتین




ذات کا آئینہ جب دیکھا تو حیرانی ہوئی
میں نہ تھا گویا کوئی مجھ سا تھا میرے روبرو

عارف عبدالمتین